ہر لمحہ ظلمتوں کی خدائی کا وقت ہے
شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے
کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ
ہشیار! ندیوں کی چڑھائی کا وقت ہے
ہوتے ہی شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
کوئی بھی وقت ہو کبھی ہوتا نہیں جدا
کتنا عزیز اس کی جدائی کا وقت ہے
دل نے کہا کہ شامِ شبِ وصل سے نہ بھاگ
اب پک چکی ہے فصل کٹائی کا وقت ہے
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment