Thursday, 24 March 2016

میں رقص کناں حلقہ زنجیر سے نکلا

میں رقص کناں حلقۂ زنجیر سے نکلا 
ایک اور مقدر میری تقدیر سے نکلا 
اس عالمِ وحشت سے نکلنا تھا مجھے بھی 
گِریہ کی طرح میں دلِ دلگیر سے نکلا 
دنیا تِری نسبت سے ہی رنگین نہیں ہے 
میں آج تِرے نام کی جاگیر سے نکلا 
پھر آج طبیعت میں بحالی کی کمی ہے 
پھر آج ستارہ کوئی تاخیر سے نکلا 
تاریخ کے اوراق پہ میں حرفِ غلط ہوں 
میرا یہی کردار اساطیر سے نکلا 
ڈوبا جو لہو میں تو نظر آیا سبھی کو 
میں خود کو مٹاتی ہوئی تعمیر سے نکلا 
وہ چاندنی راتوں میں نکلتا نہیں، لیکن 
پانی پہ ابھرتی ہوئی تصویر سے نکلا 

 فاضل جمیلی

No comments:

Post a Comment