Thursday 31 March 2016

نام سے اس کے پکاروں خود کو

نام سے اس کے پکاروں خود کو
آج حیران ہی کر دوں خود کو
دست بردار ہوا وہ مجھ سے
اب میں کس طرح لٹاؤں خود کو
میرے حصے میں مِرا کچھ بھی نہیں
اس سے مل جاؤں تو پاؤں خود کو
جب زباں کھولے مجھے یاد کرے
اس کی آواز میں بھر دوں خود کو
بھیڑ چھَٹ جائے ذرا یادوں کی
شور کم ہو تو سمیٹوں خود کو
بن چکا جتنا مجھے بننا تھا
چاک سے چھین کے پھینکوں خود کو
ہوش آیا ہے گھنے جنگل میں
سوچتا ہوں کہ پکاروں خود کو

نعمان شوق

No comments:

Post a Comment