نام سے اس کے پکاروں خود کو
آج حیران ہی کر دوں خود کو
دست بردار ہوا وہ مجھ سے
اب میں کس طرح لٹاؤں خود کو
میرے حصے میں مِرا کچھ بھی نہیں
جب زباں کھولے مجھے یاد کرے
اس کی آواز میں بھر دوں خود کو
بھیڑ چھَٹ جائے ذرا یادوں کی
شور کم ہو تو سمیٹوں خود کو
بن چکا جتنا مجھے بننا تھا
چاک سے چھین کے پھینکوں خود کو
ہوش آیا ہے گھنے جنگل میں
سوچتا ہوں کہ پکاروں خود کو
نعمان شوق
No comments:
Post a Comment