Monday, 28 March 2016

اسم پڑھا اور جسم سے اٹھ کر عشق اٹھایا

اسم پڑھا اور جسم سے اٹھ کر عشق اٹھایا
دل درویش نے مست قلندر عشق اٹھایا
فرش پہ عرش کے بعد مکرر عشق اٹھایا
روح نے اب کے جسم کے اندر عشق اٹھایا
شاعر، صوفی، فلسفہ دان، ولی، پیغمبر
سب نے اپنے ظرف برابر عشق اٹھایا
دارالعشق میں عشق کی سو قسمیں ارزاں تھیں 
لیکن، میں نے سب سے بہتر عشق اٹھایا
اسی لیے مِرے گرد یہ کاہکشاں رقصاں ہے
میں نے ان آفاق کا محور عشق اٹھایا
اس کو عشق خود آپ اٹھا کر لے گیا آگے
جس نے ہمت کی اور بڑھ کر عشق اٹھایا
حضرتِ عشق نے خود آ کر گٹھڑی اٹھوائی
میں نے جب اپنے کاندھوں پر عشق اٹھایا
نیند سے جاگے، سر پر دنیا داری ڈھوئی
آنکھ لگی اور خواب کے اندر عشق اٹھایا
جس دن سب اپنے ہاتھوں میں نامے لائے
ہم نے تو اس دن بھی سر پر عشق اٹھایا
ایک بدن، دو جسم بنا تھا جس خواہش پر
اس خواہش نے پیکر پیکر عشق اٹھایا
دنیا آگ کا دریا تھی،۔ پر تیر گئے ہم
دل نے بھی کیا خوب شناور عشق اٹھایا
ہم نے کارِِ خیر کو مزدوری نہیں جانا
بے لالچ، بے اجرت یکسر عشق اٹھایا
یہ دیوانگی، دیوانے پن سے نہیں آئی
ہم نے احمدؔ! سوچ سمجھ کر عشق اٹھایا

احمد فرید

No comments:

Post a Comment