اسم پڑھا اور جسم سے اٹھ کر عشق اٹھایا
دل درویش نے مست قلندر عشق اٹھایا
فرش پہ عرش کے بعد مکرر عشق اٹھایا
روح نے اب کے جسم کے اندر عشق اٹھایا
شاعر، صوفی، فلسفہ دان، ولی، پیغمبر
دارالعشق میں عشق کی سو قسمیں ارزاں تھیں
لیکن، میں نے سب سے بہتر عشق اٹھایا
اسی لیے مِرے گرد یہ کاہکشاں رقصاں ہے
میں نے ان آفاق کا محور عشق اٹھایا
اس کو عشق خود آپ اٹھا کر لے گیا آگے
جس نے ہمت کی اور بڑھ کر عشق اٹھایا
حضرتِ عشق نے خود آ کر گٹھڑی اٹھوائی
میں نے جب اپنے کاندھوں پر عشق اٹھایا
نیند سے جاگے، سر پر دنیا داری ڈھوئی
آنکھ لگی اور خواب کے اندر عشق اٹھایا
جس دن سب اپنے ہاتھوں میں نامے لائے
ہم نے تو اس دن بھی سر پر عشق اٹھایا
ایک بدن، دو جسم بنا تھا جس خواہش پر
اس خواہش نے پیکر پیکر عشق اٹھایا
دنیا آگ کا دریا تھی،۔ پر تیر گئے ہم
دل نے بھی کیا خوب شناور عشق اٹھایا
ہم نے کارِِ خیر کو مزدوری نہیں جانا
بے لالچ، بے اجرت یکسر عشق اٹھایا
یہ دیوانگی، دیوانے پن سے نہیں آئی
ہم نے احمدؔ! سوچ سمجھ کر عشق اٹھایا
احمد فرید
No comments:
Post a Comment