Monday 28 March 2016

جس طرف دیکھئے انبوہ سگاں رقص میں ہے

جس طرف دیکھیے انبوہِ سگاں رقص میں ہے
شہر آشوب لکھے کون، سناں رقص میں ہے
روح کی تھاپ نہ روکو کہ قیامت ہو گی
تم کو معلوم نہیں کون کہاں رقص میں ہے
میں تو مشکل میں ہوں اس تختِ سلیماں پر بھی
اور مِرے چاروں طرف سارا جہاں رقص میں ہے
اس قیامت کی بشارت تو کتابوں میں نہ تھی
خواب میں گم ہیں مکیں اور مکاں رقص میں ہے  
شہر میں حال کسی اور کو آتا ہی نہیں
آنکھ اٹھاتا ہوں جدھر صرف دھواں رقص میں ہے
بھید کیا ہے تِری سنگیت بھری دنیا کا
خاکِ جاں رقص میں ہے آبِ رواں رقص میں ہے
کوئی دنیا میں اگر ہے تو دکھائی دے مجھے
میں اکیلا ہوں مِری خاک جہاں رقص میں ہے

نعمان شوق

No comments:

Post a Comment