Monday, 28 March 2016

ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں

ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
آگ بن کر سارے جنگل میں بھڑک سکتا ہوں میں
میں اگر تجھ کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے
اپنے لکھے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں
اک زمانے بعد آیا ہاتھ اس کا ہاتھ میں
دیکھنا یہ ہے مجھے کتنا بہک سکتا ہوں میں
آئینے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار
ایک دن اپنی بھی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں
کشتیاں اپنی جلا کر کیوں تم آئے میرے ساتھ
کہہ رہا تھا مات کھا سکتا ہوں، تھک سکتا ہوں میں
ہے سرِ تسلیم خم تیری حکومت کے حضور
ایک حد تک ہی مگر پیچھے سرک سکتا ہوں میں
اب اسے غرقاب کرنے کا ہنر بھی سیکھ لوں
اس شکارے کو اگر پھولوں سے ڈھک سکتا ہوں میں

نعمان شوق

No comments:

Post a Comment