ہاتھ ہریالی کا اک پل میں جھٹک سکتا ہوں میں
آگ بن کر سارے جنگل میں بھڑک سکتا ہوں میں
میں اگر تجھ کو ملا سکتا ہوں مہر و ماہ سے
اپنے لکھے پر سیاہی بھی چھڑک سکتا ہوں میں
اک زمانے بعد آیا ہاتھ اس کا ہاتھ میں
آئینے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار
ایک دن اپنی بھی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں
کشتیاں اپنی جلا کر کیوں تم آئے میرے ساتھ
کہہ رہا تھا مات کھا سکتا ہوں، تھک سکتا ہوں میں
ہے سرِ تسلیم خم تیری حکومت کے حضور
ایک حد تک ہی مگر پیچھے سرک سکتا ہوں میں
اب اسے غرقاب کرنے کا ہنر بھی سیکھ لوں
اس شکارے کو اگر پھولوں سے ڈھک سکتا ہوں میں
نعمان شوق
No comments:
Post a Comment