دیکھئے ان سے ملاتا ہے خدا کون سے دن
کون سی رات ہو مقبول دعا کون سے دن
اب جدائی کی مصیبت نہیں اٹھتی مجھ سے
سر مِرا تن سے کریں گے وہ جدا کون سے دن
اس بہانے سے نہ آیا وہ مِری میت پر
غمزہ و ناز جوانی میں وہ کیونکر نہ کریں
اور پھر آئیں گے انداز و ادا کون سے دن
اے نجومی! تجھے دعویٰ ہے تو یہ حکم لگا
کون سے وقت ملیں گے وہ بتا کون سے دن
فرقتِ یار میں اک ایک گھڑی بھاری ہے
نہیں معلوم کہ آوے گی قضا کون سے دن
روز آ کر وہ کوئی فتنہ اٹھا جاتے ہیں
نہیں ہوتا ہے یہاں حشر بپا کون سے دن
تمھیں منصف ہو کوئی راہ کہاں تک دیکھے
وعدۂ وصل کِیا، یہ نہ کھُلا کون سے دن
ان کے آتے ہی ہوا وعدہ ہمارا پورا
وائے تقدیر کہ آئی ہے قضا کون سے دن
مست ہیں جوشِ جوانی کی وہ کیفیت میں
اب نہ آتا تو پھر آتا یہ مزا کون سے دن
میری کشتی کو کیا بادِ مخالف نے تباہ
منتظر ہوں کہ بدلتی ہے ہوا کون سے دن
کوئی ہفتہ نہیں ایسا کہ نہ ہو غم جس میں
عیش و عشرت کے ہیں یا بارِ خدا کون سے دن
طلبِ وصل پہ کھینچی ہے چھری روزِ وصال
اس خطا پر مجھے دیتے ہو سزا کون سے دن
ان کا برتاؤ نرالا ہے یہ کھُلتا ہی نہیں
مہربان کون سے دن ہیں وہ خفا کون سے دن
بعد مدت کے جو ٹوکا تو کہا ظالم نے
آپ سے ہم نے کیا عہدِ وفا کون سے دن
حشر کے روز تو یا رب ہو نزولِ رحمت
ہم گنہگاروں کو ملتی ہے سزا کون سے دن
دیکھئے کب مِری قسمت کا ستارا چمکے
سامنے آئے وہ خورشید لقا کون سے دن
خواہشِ وصل پہ وہ پوچھتے ہیں یہ مجھ سے
کہ برس دن میں مبارک ہیں بتا کون سے دن
نو گرفتار تِری زلف میں ہیں طائرِ دل
تو کرے گا انہیں صدقے میں رہا کون سے دن
دیکھئے دیکھتے ہیں کب وہ اٹھا کر چلمن
دیکھئے اُٹھتی ہے کمبخت حیا کون سے دن
برسوں گزرے ہیں کہ بیمارِ محبت میں ہوں
ہوگی اے چارہ گرو! مجھ کو شفا کون سے دن
ہم سے ابتک تو تِری آنکھ بہت سیدھی تھی
دیکھئے کرتی ہے یہ مل کے دغا کون سے دن
داغؔ سے عید کے دن بھی نہ ملے وہ آ کر
یہ گیا وقت پھر آئے گا بھلا کون سے دن
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment