Thursday 31 March 2016

نار بہار کر سکے خاک کو کیمیا کرے

نار بہار کر سکے، خاک کو کیمیا کرے
جُز دمِ عشق صاحبو! کون یہ معجزہ کرے
یار کی بات اور تھی، یار کی بات اور ہے
اب کوئی لاکھ آئے اور ہم سے کہا سنا کرے
عکس پہ تہمتیں دھریں، نقش کو گالیاں بکیں
مُرتدِ آئینہ بتا! کون تِرا بھلا کرے؟
ٹھیک سے یاد تو نہیں، رنگ نما سی موج تھی
جانے کدھر کھسک گئی، کوئی ذرا پتا کرے
عصر کہ ڈھونڈھتا تھا اک، ایسا علیم اسم جو
بابِ تحیرِ سخن، حسنِ سخن سے وا کرے
طالبِ علمِ باطنی! آگ میں ایک رمز ہے
ساعتِ وصل میں کبھی، گر تُو مشاہدہ کرے
دل نہیں، سینۂ بشر وقت دھڑک رہا ہے یہ
اور یہی وقت ہے کہ جو وقت کی ابتدأ کرے
تُو مجھے دیکھ کر کسی وہم کا مت شکار ہو
ویسے میں ہوں وہی کہ جو عشق میں مبتلا کرے
اپنی ندائے آخری، یاد ہے آج بھی، جو تھی
وہ جو خدا سے بھی نہ ہو، میں وہ کروں خدا کرے
منکرِ دشت سے بھلا، کیسی امیدِ خیر قیس!؟
جس کو مِری حیا نہیں، وہ تِرا پاس کیا کرے؟
دل تِرے واسطے کسی رنج کا مرحلہ بنے؟
یعنی خدانخواستہ، تجھ سے کوئی گِلا کرے
اے نمِ دو جہانیاں!،۔۔ اے رمِ لا زمانیاں
تُو جسے ہم صدا رکھے، کون اسے بے نوا کرے
اس کو یہاں ڈرا دیا، اس کو وہاں جلا دیا
تیرا ڈراؤنا خدا،۔ اور کرے تو کیا کرے
مجھ کو علیؔ دعا سے کام، کل تھا نہ آج ہے کوئی
راضی ہوں یار سے کہ وہ جیسی ہو جو رضا کرے

علی زریون

No comments:

Post a Comment