Wednesday 30 March 2016

ایک ٹہنی سے برگ ٹوٹا ہے

ایک ٹہنی سے برگ ٹُوٹا ہے
ساری شاخوں سے خُون پھُوٹا ہے
اب تو قسمت پہ چھوڑ دے ملنا
تیز پانی میں ہاتھ چھُوٹا ہے
میں نے پھُولوں پہ ہاتھ رکھا تھا
کیوں ہتھیلی سے خُون پھُوٹا ہے
وقت کر دے گا فیصلہ اس کا
کون سچا ہے،۔ کون جھُوٹا ہے
ہسنے والے کو کیا خبر اس کی
مجھ پہ کیسا پہاڑ ٹُوٹا ہے
اس کے فن میں تو شک نہیں لیکن
یہ بھی مانو وہ شخص جھُوٹا ہے
میں کہوں بھی تو کون مانے گا
جس کمان سے یہ تِیر چھُوٹا ہے
کس کو توقیر ؔیہ خبر ہو گی
کس تعلق سے اس نے لُوٹا ہے

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment