شریکِ بزمِ تمنا کی جستجو بھی گئی
بجھے چراغ بھی، جینے کی آرزو بھی گئی
وہ رُت گزر بھی چکی جس میں پھول کھلنے تھے
دیارِ خواب سے تعبیرِ رنگ و بو بھی گئی
ہے زخم زخم سراپا مِرا وجود، مگر
خمارِ شب کا جو ساتھی تھا وہ بچھڑ بھی گیا
اکیلی شام سے اب گردشِ سبو بھی گئی
نواحِ جاں میں خموشی ہے نوحہ گر اب تو
شکست خوردہ امیدوں کی ہاؤ و ہو بھی گئی
مڑی جو راہ تو ساحل کا ساتھ چھوٹ گیا
نظر سے دور ہر اک موجِ تند خو بھی گئی
مگر جواب میں لرزاں تھا بازگشتِ سکوت
مِری پکار تو صحرا میں چار سو بھی گئی
شگفتہ روئی تو وہ لے گیا تھا ساتھ اور اب
مِرے مزاج سے خندہ لبی کی خو بھی گئی
ہر اک نوازشِ دید و شنید ختم ہوئی
نشاطِ قرب کی شائستہ گفتگو بھی گئی
یہی تو دکھ ہے اندھیروں کی حکمرانی سے
فریب خوردہ اجالوں کی آبرو بھی گئی
ارمان نجمی
No comments:
Post a Comment