Monday, 21 March 2016

پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر

پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر
 اپنی شکستگی کا بھی تھوڑا خیال کر
ڈس لے تمہیں کو نہ موقع نکال کر
رکھو نہ آستیں میں کوئی سانپ پال کر
شرمندگی کا زخم نہ گہرا لگے کہیں
کچھ اس قدر دراز نہ دستِ سوال کر
میری طرح نہ تُو بھی گھٹن کا شکار ہو
خود اپنی خواہشوں کو نہ یوں پائمال کر
جو آپ کی نگاہ میں اتنا بلند ہے
دیکھا ہے اس کا ظرف بھی میں نے کھنگال کر
لمحوں کی تند موج سے بچنا محال ہے
رکھو گے کیسے یاد کی خوشبو سنبھال کر
ارمانؔ بس ایک لذتِ اظہار کے سوا
ملتا ہے کیا خیال کو لفظوں میں ڈھال کر

ارمان نجمی 

No comments:

Post a Comment