Monday 21 March 2016

تمہا رے چاہنے سے اور کیا ہو گا مری جاں

تمہا رے چاہنے سے اور کیا ہو گا مِری جاں
بدل جا ئے گی کیا یہ صورت دنیا مری جاں
نظر آتا نہیں لیکن رگ و پے میں رواں ہے
حقیقت سے ہے کیسا خواب کا رشتہ مری جاں
جگہ سے بے جگہ ہونا نہ پڑ جائے تمہیں بھی
بدلتا جا رہا ہے شہر کا نقشہ مری جاں
کنارے پر کسے آواز دیتے جا رہے ہو؟
کسی کے واسطے رکتا ہے کب دریا مری جاں
تم اپنے آپ کو ثابت قدم سمجھے تھے لیکن
بہا کر لے گیا پانی کا اک ریلا مری جاں
بہت منہگی پڑے گی راہِ حق کی یہ مسافت
بدلنا پڑ نہ جائے بیچ میں رستہ مری جاں
ہوا اس کو بہا کر لے گئی اک اور ہی سمت
پلٹنے کا نہیں خوشبو کا وہ جھونکا مری جاں
تو کیا اب تک تم اپنے روبرو آئے نہیں ہو
تو کیا نشہ تصور کا نہیں اترا مری جاں
تمہاری چشم ظاہر بیں تہِ باطن میں اتری
بہت دیکھ کر بھی تم نے کیا دیکھا مری جاں
سبھی کچھ ایک ہی جیسا نہیں رہتا ہمیشہ
گزرتے موسموں سے تم نے کیا سیکھا مری جاں
بساطِ اجنبیت پر تم اک تنہا مسافر
کہیں کوئی نہیں پہچان کا رشتہ مری جاں
ہمیں جیسے یہاں سب پیاس کے مارے ملیں گے
تلاش آب میں آباد ہے صحرا مری جاں
اٹھو اور اس کے استقبال کو دروازہ کھولو
کہ دستک دے رہا ہے آخری لمحہ مری جاں

ارمان نجمی 

No comments:

Post a Comment