دن ڈھل چکا ہے اور گھڑی بھر کی شام ہے
پھر اس کے بعد آج کا قصہ تمام ہے
اس زندگی سے میری نبھے گی تو کس طرح
میں سست رو ہوں اور یہ بہت تیز گام ہے
لاحاصلی کا ساتھ نہ چھوٹا تمام عمر
دستِ طلب بڑھا نہ سُوئے گوہرِ مراد
پہلے یہ دیکھ، کیا تِری مٹھی میں دام ہے
سچ بول کر وبال کا آزار کون لے
ہر شخص اپنی مصلحتوں کا غلام ہے
اک عمر سے ہوں دشتِ مسافت میں بے شناخت
میں خوب جانتا ہوں، مِرا کیا مقام ہے
اک حرفِ معتبر کی بھی حسرت نہ رکھ جہاں
آزاد اس کو کہتے ہیں جو زیرِ دام ہے
کب تک پھروں میں راحتِ جاں کی تلاش میں
میری حیات کیا یہی سوزِ دوام ہے
ارمان نجمی
No comments:
Post a Comment