Monday, 21 March 2016

حضور شاہ میں کوئی نہ سر خمیدہ ملا

حضورِ شاہ میں کوئی نہ سر خمیدہ ملا
اگرچہ دامنِ دل سب کا ہی دریدہ ملا
رہائی کیوں نہ ملی، اس کو چھوڑئیے لیکن
گواہ مجھ کو ہمیشہ ہی کور دیدہ ملا
کسی کے چہرے پہ خوشیوں کے پھول کھل نہ سکے
جسے بھی دیکھا وہی مجھ کو آب دیدہ ملا
بشر کو مل گئی معراج، بن گیا انساں
فقط خدا کی عبادت کا جب عقیدہ ملا
عجب دیار ہے مایوسیوں میں ڈوبا ہوا
ملا ہے جو بھی یہاں وہ ستم رسیدہ ملا
کشادِ ظرف تو جیسے فشارِ قبر میں ہے
مزاجِ یار بھی دیکھا تو خوں چشیدہ ملا
بنائی میرے لیے پھر قدم قدم پہ صلیب
فقیہِ وقت کو مجھ سے نہ جب قصیدہ ملا
حیات چشمِ غزالاں کی دعوے دار تو ہے
نہ یہ غزال حسیں ہے، نہ یہ رمیدہ ملا
کوئی تو آ کے یہ انوارؔ کو بھی سمجھائے
کہ تیرے شہر میں ہر شخص کیوں کبیدہ ملا

انوار فیروز

No comments:

Post a Comment