Monday 21 March 2016

شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی

شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی 
بکھر گیا جو ہوا سے نقشِ پا ہی سہی 
یہ حکم ہے کہ گئے موسموں کو یاد کروں
نئی رتوں کا تجسس مجھے ملا ہی سہی 
زمیں کے بعد ابھی آسماں کے دکھ بھی سہوں
مِرے لیے یہ سزا ہے بڑی عطا ہی سہی 
چراغ کہہ کے مِرا نور مجھ سے چھین لیا
چراغ پھر بھی رہوں گا بجھا ہوا ہی سہی 
سجا لیے ہیں مصائب کے نیر آنکھوں میں
سکوں کی نیند نہیں ہے تو رتجگا ہی سہی 
اے دھڑکنوں کو نیا نور بخشنے والے
میں نور سے تہی تو مِری خطا ہی سہی 
حقیقتوں کے بدن پر کوئی لبادہ نہیں
اگر یہ سچ سزا ہے تو پھر سزا ہی سہی 
یہ دل کا کرب لبوں تک کبھی تو آئے گا
مِرے لیے یہ خموشی کا ارتقا ہی سہی 
جہاں کے درد کو انوارؔ نے سمیٹ لیا
میں اک خوشی کی تمنا میں مر مٹا ہی سہی 

انوار فیروز

No comments:

Post a Comment