Sunday 27 March 2016

عشق ہر چند مری جان سدا کھاتا ہے

عشق ہر چند مِری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے
آہ کب تک میں بکوں تیری بلا سنتی ہے
باتیں لوگوں کی جو کچھ دل مجھے سنواتا ہے
ہم نشیں پوچھ نہ اس شوخ کی خوبی مجھ سے
کیا کہوں تجھ سے غرض جی کو مِرے بھاتا ہے
بات کچھ دل کی ہمارے تو نہ سلجھی ہم سے
آپی خوش ہووے ہے، پھر آپ ہی گھبراتا ہے
جی کڑا کر کے تِرے کوچے سے جب جاتا ہوں
دل دشمن یہ مجھے گھیر کے پھر لاتا ہے
راہ پینڈے کبھو اس شوخ کے تئیں ہم سے بھی
دید وا دید تو ہوتی ہے جو مل جاتا ہے
درد کی قدر مِرے یار سمجھنا واللہ
ایسا آزاد تِرے دام میں یوں آتا ہے

خواجہ میر درد

No comments:

Post a Comment