مجھ سے بیگانہ رہا کرتی تھی شب بھر چاندنی
ہو گئی اب تو میرے غم کی خوگر چاندنی
تن دریدہ تیرگی کو ڈھانپنے کے واسطے
لے کے آئی ہے نئی کرنوں کی چادر چاندنی
میں اندھیرے میں چلا تھا جانبِ منزل، مگر
لوگ اپنے بند کمروں میں پڑے سوتے رہے
دستکیں دیتی رہی کمروں کے باہر چاندنی
دفعتاً دیکھا تو انور ہو گیا مبہوت سا
چاند پس منظر میں تھا اور پیش منظر چاندنی
انور سدید
No comments:
Post a Comment