Monday, 21 March 2016

وہ خود سراب ہے لوگوں کو آب کیا دے گا

وہ خود سراب ہے اوروں کو آب کیا دے گا
جو اک فریب ہے وہ احتساب کیا دے گا
وہ میرے دور کا چنگیز ہے کسے معلوم
نہ جانے شہر کو تازہ عذاب کیا دے گا
وہ جس کے ہاتھ سے میرا لہو ٹپکتا ہے
وہ اپنے ظلم کا مجھ کو حساب کیا دے گا
بھری بہار میں کلیوں کو جس نے قتل کیا
مِرے چمن کو مہکتا گلاب کیا دے گا
سیاہ حروف کے پیکر تراشنے والا
سنہرے لفظوں کی مجھ کو کتاب کیا دے گا
روش روش پہ تمازت بکھیر دی اس نے
نئی رُتوں میں چمن کو جواب کیا دے گا
تمام عمر گزاری ہے جس نے ظلمت میں
وہ روشنی کے لیے آفتاب کیا دے گا
جو میری فکر کا محتاج ہے زمانے میں
مِرے قلم کو وہ دولت مآب کیا دے گا
اسی کو آج ہے فیروز بختیوں کی طلب
مگر اسے یہ طلسماتی خواب کیا دے گا

انوار فیروز

No comments:

Post a Comment