Saturday 26 March 2016

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار
 بس کچھ چلتا نہیں، کیا مفت جاتی ہے بہار
لالہ و گل نے ہماری خاک پر ڈالا ہے شور
کیا قیامت ہے موؤں کو بھی ستاتی ہے بہار
نرگس و گل کی دیکھو  کلیاں کھلی جاتی ہیں سب
پھر بھی انہی خوابیدہ مستوں کو جگاتی ہے بہار
ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن میں لیک
جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار
شاخِ گل ہلتی نہیں، یہ بلبلوں کو باغ میں 
ہاتھ اپنے کے اشارے سے بلاتی ہے بہار

مرزا مظہر جان جاناں

No comments:

Post a Comment