Saturday 26 March 2016

ہے صدف گوہر سے خالی روشنی کیونکر ملے

ہے صدف گوہر سے خالی روشنی کیونکر ملے
آج شاید راستے میں کوئی پیغمبر ملے
کیسی رُت آئی کہ سارا باغ دشمن ہو گیا
شاخِ گل میں بھی ہمیں تلوار کے جوہر ملے
دور تک جن راستوں پر منتظر بیٹھے تھے لوگ
لوٹ کر بادِ صبا آئی تو کچھ پتھر ملے
روشنی کی کھوج میں پلٹیں زمیں کی جب تہیں
کچھ لہو کے داغ، کچھ ٹوٹے ہوئے خنجر ملے
آخر اب ایسا بھی کیا دنیا سے بددل ہونا زیبؔ
پہلے مٹی میں تو میرے یار یہ جوہر ملے

زیب غوری

No comments:

Post a Comment