ہے صدف گوہر سے خالی روشنی کیونکر ملے
آج شاید راستے میں کوئی پیغمبر ملے
کیسی رُت آئی کہ سارا باغ دشمن ہو گیا
شاخِ گل میں بھی ہمیں تلوار کے جوہر ملے
دور تک جن راستوں پر منتظر بیٹھے تھے لوگ
روشنی کی کھوج میں پلٹیں زمیں کی جب تہیں
کچھ لہو کے داغ، کچھ ٹوٹے ہوئے خنجر ملے
آخر اب ایسا بھی کیا دنیا سے بددل ہونا زیبؔ
پہلے مٹی میں تو میرے یار یہ جوہر ملے
زیب غوری
No comments:
Post a Comment