Tuesday 29 March 2016

نگاہوں سے دل میں سمائے چلا جا

نگاہوں سے دل میں سمائے چلا جا
یونہی میری ہستی پہ چھائے چلا جا
مِرا ذوق ہے معرضِ گفتگو میں
ذرا رخ سے آنچل ہٹائے چلا جا
ابھی زندگی کے ہیں کچھ سانس باقی
چراغِ سحر جھلملائے چلا جا
زمانے کے ہاتھوں یہ ویراں نہ ہو گی
خیالوں کی بستی بسائے چلا جا
تِرے ضو سے ہے ہستئ وجدؔ روشن
مِرے داغِ دل جگمگائے چلا جا

سکندر علی وجد

No comments:

Post a Comment