کس نے دیکھا خمِ ابرو کو ہے پیمانے میں
چل رہی آج جو تلوار ہے مے خانے میں
رات کو نیند نہ اس ماہ جبیں کو آئی
پھونکا افسوں تھا عجب ہم نے بھی افسانے میں
کیا نزاکت ہے کہ کل عکسِ دُرِ گوش سے آہ
شمع نے عشق کے سررشتہ سے شب محفل میں
کاڑھیں الفت کی ہیں کلیاں پرِ پروانے میں
اے ظفرؔ سوچ کے آرام سے ہم پاؤں پسار
سو قیامت ہوئی اک آنکھ کے لگ جانے میں
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment