Monday 28 March 2016

کس نے دیکھا خم ابرو کو ہے پیمانے میں

کس نے دیکھا خمِ ابرو کو ہے پیمانے میں
چل رہی آج جو تلوار ہے مے خانے میں
رات کو نیند نہ اس ماہ جبیں کو آئی
پھونکا افسوں تھا عجب ہم نے بھی افسانے میں
کیا نزاکت ہے کہ کل عکسِ دُرِ گوش سے آہ
یہ پڑا بوجھ کہ درد اس کے ہوا شانے میں
شمع نے عشق کے سررشتہ سے شب محفل میں
کاڑھیں الفت کی ہیں کلیاں پرِ پروانے میں
اے ظفرؔ سوچ کے آرام سے ہم پاؤں پسار
سو قیامت ہوئی اک آنکھ کے لگ جانے میں

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment