Tuesday 22 March 2016

یہ بزم میں نہیں ساقی شراب اڑتی ہے

یہ بزم میں نہیں ساقی شراب اڑتی ہے
ہماری دولتِ عمرِ شباب اڑتی ہے
عرق فشاں گلِ رخسار آج ہیں کس کے
صبا! چمن میں جو بوئے گلاب اڑتی ہے
کرے ہے قتل ہزاروں کو تیری تیغِ نگاہ
نہ اس کا مٹتا ہے جوہر، نہ آب اڑتی ہے
تجھے سناتا ہوں میں اپنا گر فسانۂ غم
تو نیند بھی تِری اے مستِ خواب! اڑتی ہے
جلایا تُو نے جگر کس کا شوخِ آتش خُو
تِری جو بزم میں بوئے کباب اڑتی ہے
رہے ہے شدتِ گریہ میں بھی مکدر دل
عجب ہے گرد یہاں تو، پر آب اڑتی ہے
پڑے نہ دامنِ قاتل پہ دیکھ اے بسمل
لہو کی چھینٹ دمِ اضطراب اڑتی ہے
اوڑا پھرے ہے تنِ زار یوں ظفرؔ میرا
ہوا پہ جوں کوئی تکّل خراب اڑتی ہے

بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment