ٹکڑوں کو دل کے چنتا رہا ہوں تمام رات
کانٹوں پہ جیسے چلتا رہا ہوں تمام رات
جاتے ہوئے وہ کہہ نہ سکی مجھ کو الوداع
یہ سوچ کے میں روتا رہا ہوں تمام رات
کس جرم کی سزا ہمیں لمحے میں مل گئی
اس خوف سے کہ وہ مجھے تنہا نہ چھوڑ دے
سائے سے اپنے ڈرتا رہا ہوں تمام رات
باہر تمام رات رہیں تیز بارشیں
اس ڈر سے گھر میں جلتا رہا ہوں تمام رات
جس حادثے نے توڑا ہے اس شخص کا بھرم
اس حادثے کو لکھتا رہا ہوں تمام رات
بے شک وہ جا چکی تھی ہواؤں کے دوش پر
آواز اس کی سنتا رہا ہوں تمام رات
روئے گی میرے مرنے پہ کیا کہہ کے وہ مجھے
میں کیسے خواب بُنتا رہا ہوں تمام رات
اک شب میں جھک گیا ہوں ندامت کے بوجھ سے
گر گر کے میں سنبھلتا رہا ہوں تمام رات
صفدرؔ رہوں میں اس کی نگاہوں میں سرخرو
رب سے دعا یہ کرتا رہا ہوں تمام رات
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment