Friday, 25 March 2016

ٹکڑوں کو دل کے چنتا رہا ہوں تمام رات

ٹکڑوں کو دل کے چنتا رہا ہوں تمام رات
کانٹوں پہ جیسے چلتا رہا ہوں تمام رات
جاتے ہوئے وہ کہہ نہ سکی مجھ کو الوداع
یہ سوچ کے میں روتا رہا ہوں تمام رات
کس جرم کی سزا ہمیں لمحے میں مل گئی
جیتا رہا ہوں مرتا رہا ہوں تمام رات
اس خوف سے کہ وہ مجھے تنہا نہ چھوڑ دے
سائے سے اپنے ڈرتا رہا ہوں تمام رات
باہر تمام رات رہیں تیز بارشیں
اس ڈر سے گھر میں جلتا رہا ہوں تمام رات
جس حادثے نے توڑا ہے اس شخص کا بھرم
اس حادثے کو لکھتا رہا ہوں تمام رات
بے شک وہ جا چکی تھی ہواؤں کے دوش پر
آواز اس کی سنتا رہا ہوں تمام رات
روئے گی میرے مرنے پہ کیا کہہ کے وہ مجھے
میں کیسے خواب بُنتا رہا ہوں تمام رات
اک شب میں جھک گیا ہوں ندامت کے بوجھ سے
گر گر کے میں سنبھلتا رہا ہوں تمام رات
صفدرؔ رہوں میں اس کی نگاہوں میں سرخرو
رب سے دعا یہ کرتا رہا ہوں تمام رات

صفدر ہمدانی

No comments:

Post a Comment