زخم اگر گل ہے تو پھر اس کا ثمر بھی ہو گا
ہجر کی رات میں پوشیدہ قمر بھی ہو گا
کون سنتا ہے یہاں پست صدائی اتنی
تم اگر چیخ کے بولو تو اثر بھی ہو گا
کچھ نہ کچھ رختِ سفر پاس بچا کر رکھنا
مطمئن رہئے، کبھی خود کو تسلی دیجے
یہ ہی جینا ہے، یہی جینے کا ہنر بھی ہو گا
عمر گزری ہے اسی ایک تمنا میں ندیمؔ
مجھ سے بے گھر کا کہیں شہر میں گھر بھی ہو گا
جاوید ندیم
No comments:
Post a Comment