Saturday 19 March 2016

اک سانولی کو عشق ہوا ہے فقیر سے

اک سانولی کو عشق ہوا ہے فقیر سے
شیلے کی نظم ملنے لگی روحِ میرؔ سے
روزِ ازل سے دائمی رشتہ ہے جانِ جاں
ہر غم پزیر روح کا ہر لَو پزیر سے
میں کیسے عشق چھوڑ کے دنیا سمیٹ لوں
میں کیسے انحراف کروں اپنے پیر سے
مردہ سماعتوں سے نہ کر ذکرِ حال و قال
اظہارِ حال کر کسی زندہ ضمیر سے
مجھ عاشقِ الست کے پرزے ہی کیوں نہ ہوں
آئے گی یار کی ہی صدا لِیر لِیر سے
اپنے پیا کے رنگ سے رنگین ہے علیؔ
خسروؔ نے مسکرا کے کہا ہے کبیرؔ سے

علی زریون

No comments:

Post a Comment