اک سانولی کو عشق ہوا ہے فقیر سے
شیلے کی نظم ملنے لگی روحِ میرؔ سے
روزِ ازل سے دائمی رشتہ ہے جانِ جاں
ہر غم پزیر روح کا ہر لَو پزیر سے
میں کیسے عشق چھوڑ کے دنیا سمیٹ لوں
مردہ سماعتوں سے نہ کر ذکرِ حال و قال
اظہارِ حال کر کسی زندہ ضمیر سے
مجھ عاشقِ الست کے پرزے ہی کیوں نہ ہوں
آئے گی یار کی ہی صدا لِیر لِیر سے
اپنے پیا کے رنگ سے رنگین ہے علیؔ
خسروؔ نے مسکرا کے کہا ہے کبیرؔ سے
علی زریون
No comments:
Post a Comment