درد پی لیتے ہیں اور داغ بچا جاتے ہیں
یاں بلا نوش ہیں جو آئے چڑھا جاتے ہیں
دیکھ کر تم کو کہیں دور گئے ہم، لیکن
ٹک ٹھہر جاؤ تو پھر آپ میں آ جاتے ہیں
جب تلک پاؤں میں چلنے کی ہے طاقت باقی
کون ہو غنچہ صفت اپنے صبا کا مرہون
جیسے تنگ آئے تھے ویسے ہی خفا جاتے ہیں
رہیو ہشیار تُو لپ جھپ سے بتاں کی قائمؔ
بات کی بات میں واں دل کو اڑا جاتے ہیں
قائم چاند پوری
No comments:
Post a Comment