Thursday 31 March 2016

درد پی لیتے ہیں اور داغ بچا جاتے ہیں

درد پی لیتے ہیں اور داغ بچا جاتے ہیں
یاں بلا نوش ہیں جو آئے چڑھا جاتے ہیں
دیکھ کر تم کو کہیں دور گئے ہم، لیکن
ٹک ٹھہر جاؤ تو پھر آپ میں آ جاتے ہیں
جب تلک پاؤں میں چلنے کی ہے طاقت باقی
حالِ دل آ کے کبھو تجھ کو دکھا جاتے ہیں
کون ہو غنچہ صفت اپنے صبا کا مرہون
جیسے تنگ آئے تھے ویسے ہی خفا جاتے ہیں
رہیو ہشیار تُو لپ جھپ سے بتاں کی قائمؔ
بات کی بات میں واں دل کو اڑا جاتے ہیں

قائم چاند پوری

No comments:

Post a Comment