تِرے بغیر سکون و قرار کو ترسے
بہار میں بھی ہم اپنی بہار کو ترسے
ملا نہ چین کسی کل انہیں بھی تڑپا کر
قرار چھین کے وہ بھی قرار کو ترسے
وہ سامنے تھے مگر چشمِ شوق اٹھ نہ سکی
بس اک نظر انہیں دیکھا تو یہ سزا پائی
کہ عمر بھر کے لیے ہم قرار کو ترسے
کیا نہ وصل کا وعدہ بھی اس ستمگر نے
تمام عمر شبِ انتظار کو ترسے
کچھ ایسی بیخودی چھائی تھی غم کی اے ساحرؔ
کہ ہم شراب بھی پی کر خمار کو ترسے
ساحر بھوپالی
No comments:
Post a Comment