Tuesday, 12 April 2016

عرض غم کبھی اس کے روبرو بھی ہو جائے

عرضِ غم کبھی اُس کے رُوبرُو بھی ہو جائے
شاعری تو ہوتی ہے،۔ گُفتگُو بھی ہو جائے
زخمِ ہجر بھرنے سے،۔ یاد تو نہیں جاتی
کچھ نشاں تو رہتے ہیں، دل رفُو بھی ہو جائے
رِند ہیں بھرے بیٹھے،۔ اور مے کدہ خالی
کیا بنے جو ایسے میں ایک ہُو بھی ہو جائے
میں اِدھر تنِ تنہا،۔۔۔ اور اُدھر زمانہ ہے
وائے گر زمانے کے ساتھ تُو بھی ہو جائے
پہلی نامُرادی کا دُکھ کہیں بِسرتا ہے
بعد میں اگر کوئی سُرخرُو بھی ہو جائے
دِین و دل تو کھو بیٹھے اب فرازؔ کیا غم ہے
کُوئے یار میں غارت آبرُو بھی ہو جائے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment