سچ کو زہر کہتے ہیں
زہر پی لیا، ہم نے
راہ میں کہاں چھوڑا
دل سا رہنما ہم نے
تنگ و تِیرہ گلیوں میں
ظرف اپنا اپنا ہے
منہ سے کچھ کہا ہم نے
خواب دل کا سرمایہ
اور لٹا دیا ہم نے
ہٹ گئے ہیں رستے سے
کچھ کہا سنا ہم نے
یاد آنے والوں کا
نام بھی لیا ہم نے
دیکھنے کو دیکھا تھا
کوئی خواب سا ہم نے
برگِ گُل سے کیوں پوچھا
گھر کا راستہ ہم نے
کر لیا ہے کس دل سے
اپنا سامنا ہم نے
ادا جعفری
No comments:
Post a Comment