Tuesday, 3 May 2016

اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
اک ہوش رہا انعام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
وہ دیکھ، ستاروں کے موتی ہر آن بکھرتے جاتے ہیں
افلاک پہ ہے کہرام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
گو دیکھ چکا ہوں پہلے بھی نظارہ دریا نوشی کا 
اک اور صلائے عام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
یہ وقت نہیں ہے باتوں کا پلکوں کے سائے کام میں لا
الہام کوئی الہام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
مدہوشی میں احساس کے اونچے زینے سے گر جانے دے
اس وقت نہ مجھ کو تھام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment