اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
اک ہوش رہا انعام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
وہ دیکھ، ستاروں کے موتی ہر آن بکھرتے جاتے ہیں
افلاک پہ ہے کہرام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
گو دیکھ چکا ہوں پہلے بھی نظارہ دریا نوشی کا
یہ وقت نہیں ہے باتوں کا پلکوں کے سائے کام میں لا
الہام کوئی الہام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
مدہوشی میں احساس کے اونچے زینے سے گر جانے دے
اس وقت نہ مجھ کو تھام، کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment