شب کو تڑپے یاں تلک دردِ فراقِ یار سے
اک صدائے "الاماں" نکلی در و دیوار سے
دردِ دوری سے تِرے جو ہے قریبِ مرگِ آہ
دور دور اب موت بھی بھاگے ہے اس بیمار سے
بات کچھ وحشت میں بن آتی نہیں تو سن صدا
ضبط کرتے کرتے آخر ہم لگے دم توڑنے
پر نہ ٹوٹی مُہرِ خاموشی لبِ اظہار سے
ہے خریداری محال اب اس کی جنسِ حسن کی
وہ نہیں ہیں شے لے آویں جسے بازار سے
عاشقی میں ہے امیدِ زندگی جرأت عبث
کوئی بھی جاں بر ہوا ہے آہ اس آزار سے
قلندر بخش جرأت
No comments:
Post a Comment