Sunday, 25 December 2016

ہو کے آزردہ جو ہم سے وہ پرے پھرتے ہیں

ہو کے آزردہ جو ہم سے وہ پرے پھرتے ہیں
ہاتھ ہم اپنے کلیجے پہ دھرے پھرتے ہیں
خواب میں جیسے کہ پھرتے نظر آوے مُردہ
یوں کسی شخص پہ بس ہم بھی مرے پھرتے ہیں
پائیں ٹک رخصتِ گِریہ تو ہو پَل میں طوفاں
ابرِ جوشاں کی طرح ہم یہ بھرے پھرتے ہیں
پند عشاق کو دیتا ہے عبث تُو ناصح
کہ دل آئے ہوئے بھی کوئی ارے پھرتے ہیں
کوچۂ عشق میں ہیں صاحبِ جرأت جو لوگ
اپنے ہاتھوں پہ سروں کو وہ دھرے پھرتے ہیں

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment