ہو کے آزردہ جو ہم سے وہ پرے پھرتے ہیں
ہاتھ ہم اپنے کلیجے پہ دھرے پھرتے ہیں
خواب میں جیسے کہ پھرتے نظر آوے مُردہ
یوں کسی شخص پہ بس ہم بھی مرے پھرتے ہیں
پائیں ٹک رخصتِ گِریہ تو ہو پَل میں طوفاں
پند عشاق کو دیتا ہے عبث تُو ناصح
کہ دل آئے ہوئے بھی کوئی ارے پھرتے ہیں
کوچۂ عشق میں ہیں صاحبِ جرأت جو لوگ
اپنے ہاتھوں پہ سروں کو وہ دھرے پھرتے ہیں
قلندر بخش جرأت
No comments:
Post a Comment