Sunday, 25 December 2016

تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں

تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں
اس نرگس بیمار کے بیمار بہت ہیں
عالم پہ ہے چھایا ہوا اک یاس کا عالم
یعنی کہ تمنا کے گرفتار بہت ہیں
اک وصل کی تدبیر ہے اک ہجر میں جینا
جو کام کہ کرنے ہیں وہ دشوار بہت ہیں
وہ تیرا خریدارِ قدیم آج کہاں ہے
یہ سچ ہے کہ اب تیرے خریدار بہت ہیں
محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے
ملنا تیرا آساں ہے، طلب گار بہت ہیں
عشاق کی پرواہ نہیں خود تجھ کو وگرنہ
جی تجھ پہ فدا کرنے کو تیار بہت ہیں
وحشؔت سخن و لطف سخن اور ہی شے ہے
دیوان میں یاروں کے تو اشعار بہت ہیں

وحشت کلکتوی

No comments:

Post a Comment