تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں
اس نرگس بیمار کے بیمار بہت ہیں
عالم پہ ہے چھایا ہوا اک یاس کا عالم
یعنی کہ تمنا کے گرفتار بہت ہیں
اک وصل کی تدبیر ہے اک ہجر میں جینا
وہ تیرا خریدارِ قدیم آج کہاں ہے
یہ سچ ہے کہ اب تیرے خریدار بہت ہیں
محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے
ملنا تیرا آساں ہے، طلب گار بہت ہیں
عشاق کی پرواہ نہیں خود تجھ کو وگرنہ
جی تجھ پہ فدا کرنے کو تیار بہت ہیں
وحشؔت سخن و لطف سخن اور ہی شے ہے
دیوان میں یاروں کے تو اشعار بہت ہیں
وحشت کلکتوی
No comments:
Post a Comment