وفا سرشت ہے میری، کہا نہ کرتا تھا
یہ فیصلہ بھی مرے حق میں ہوا نہ کرتا تھا
بہت دنوں سے مرے گھر پہ روز آتا ہے
بلاتے رہتے تھے جس کو سنا نہ کرتا تھا
یقیں نہیں ہے کہ مجبور ہو گیا وہ بھی
ہزار آنکھوں پہ خوابوں نے دستکیں دی تھیں
مگر وہ حال تھا دل کا، کھُلا نہ کرتا تھا
بہت کمال تھا اس میں اور ایک یہ بھی تھا
کہ اک مقام سے آگے وفا نہ کرتا تھا
تاجدار عادل
No comments:
Post a Comment