Sunday, 25 December 2016

کوئی نہیں پچھتانے والا

کوئی نہیں پچھتانے والا
مر جائے مر جانے والا
محفل میں آئے گا کیوں کر
خلوت میں شرمانے والا
میں روکوں لیکن کیا روکوں
جائے گا گھر جانے والا
شکر خدا کا ہم کرتے ہیں
کام آیا، کام آنے والا
صبر مِرا بے کار نہ جائے
تڑپے وہ تڑپانے والا
اپنا دل بہلاؤں کس سے
ہے کون آنے جانے والا
وہ نہ ملیں مجھ کو مل جائے 
کوئی جی بہلانے والا
دل وہ شے ہے جس کا شاکی
کھونے والا، پانے والا
لطف و کرم فرماتا جائے
لطف و کرم فرمانے والا
کیا سمجھے اسرارِ محبت
دل دے کر پچھتانے والا
پھولوں کا مرجھانا دیکھے
کلیوں پر اترانے والا
جان مِری ہے جانے والی
دل ہے ان پر آنے والا
یا میں ہوں یا میرا دل ہے
روز نیا غم پانے والا
نوؔح محبت کی دنیا میں 
ہے طوفان اٹھانے والا

نوح ناروی

No comments:

Post a Comment