کوئی نہیں پچھتانے والا
مر جائے مر جانے والا
محفل میں آئے گا کیوں کر
خلوت میں شرمانے والا
میں روکوں لیکن کیا روکوں
شکر خدا کا ہم کرتے ہیں
کام آیا، کام آنے والا
صبر مِرا بے کار نہ جائے
تڑپے وہ تڑپانے والا
اپنا دل بہلاؤں کس سے
ہے کون آنے جانے والا
وہ نہ ملیں مجھ کو مل جائے
کوئی جی بہلانے والا
دل وہ شے ہے جس کا شاکی
کھونے والا، پانے والا
لطف و کرم فرماتا جائے
لطف و کرم فرمانے والا
کیا سمجھے اسرارِ محبت
دل دے کر پچھتانے والا
پھولوں کا مرجھانا دیکھے
کلیوں پر اترانے والا
جان مِری ہے جانے والی
دل ہے ان پر آنے والا
یا میں ہوں یا میرا دل ہے
روز نیا غم پانے والا
نوؔح محبت کی دنیا میں
ہے طوفان اٹھانے والا
نوح ناروی
No comments:
Post a Comment