Sunday, 25 December 2016

کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا

کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا
خواب میں آنے کی بھی تم نے قسم کھائی کیا
اس کا گھر چھوڑ کے ہم تو نہ کسی در پہ گئے
پر سمجھتا ہے اسے وہ بتِ ہرجائی کیا؟
سنتے ہی جس کے ہوئی جان ہوا تن سے مِرے
اس گلی سے یہ خبر بادِ صبا لائی کیا
واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا، توبہ
میں تو حیراں ہوں یہ بات آپ نے فرمائی کیا
بہہ چلا چشم سے یکبار جو اک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا
حرفِ مطلب کو مِرے سن کے بصد ناز کہا
ہم سمجھتے نہیں، بَکتا ہے تُو سودائی کیا
شیخ جی! ہم تو ہیں ناداں، پر اسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا
کیفیئت محفلِ خوباں کہ نہ اس بِن پوچھو
اس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دکھلائی کیا
آج دم اپنا ٹھہرتا نہیں کیا جانیۓ،۔ آہ
مصلحت لوگوں نے واں بیٹھ کے ٹھہرائی کیا
ق
بر میں وہ شوخ تھا اور سیرِ شبِ ماہ تھی رات
اپنے گھر کیا کہیں، تھی انجمن آرائی کیا
پر گیا صبح سے وہ گھر، تو یہی دھڑکا ہے
دیکھیں آج اس کے عوض لے شبِ تنہائی کیا
دیکھنے کا جو کروں اس کے میں دعویٰ جرأت
مجھ میں جرأت یہ کہاں،۔ اور مِری بینائی کیا

قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment