Tuesday, 1 September 2020

جس کو اپنانے میں اک عرصہ لگا

جس کو اپنانے میں اک عرصہ لگا
اجنبی ہونے میں بس لمحہ لگا
لوگ تو پہلے سے تھے ناآشنا
آج آئینہ بھی بے گانہ لگا
اس لیے دل میں بلایا ہے تجھے
اپنا اپنا سا تیرا چہرہ لگا
ٹھیک ہے سب کچھ مگر اسکے بغیر
یہ جہاں مجھ کو تو ویرانہ لگا
سہمی سہمی جا رہی ہے چاندنی
پیچھے پیچھے ہے وہی لڑکا لگا
سب کو دریا کے حوالہ کر دیا
پھر کنارہ سے سفینہ آ لگا
پہلے صحرا پر ہوا گھر کا گماں
رفتہ رفتہ گھر بھی اک صحرا لگا
کب اٹھا لے ہاتھ سر سے آسماں
ہے زمیں کو رات دن دھڑکا لگا
اس قدر کھاۓ ہیں وعدوں سے فریب
اب تِرا آنا بھی اک دھوکہ لگا
بارشوں کے بعد اُجلا آسماں
تیری آنکھوں میں بہت اچھا لگا
دیکھنے والوں کی حالت غیر ہے
اور ان آنکھوں میں مت سرمہ لگا
حسن ہو تو چاہنے والے بہت
عاشقوں کا ہے یہاں میلہ لگا
وہ جو پھولوں سے بھی نازک ہے اسے
چومنے میں جان کا خطرہ لگا
چاندنی کے دیس سے آیا ہوا
اجنبی تھا وہ مگر اپنا لگا
اتنی آہیں اتنے آنسو چل بسے
اس محبت پر بڑا پیسہ لگا
عمر بھر کی ناتمامی کا صلہ
ہے یہ اس کو دیکھ کے ایسا لگا

احمد فواد

No comments:

Post a Comment