جس کو اپنانے میں اک عرصہ لگا
اجنبی ہونے میں بس لمحہ لگا
لوگ تو پہلے سے تھے ناآشنا
آج آئینہ بھی بے گانہ لگا
اس لیے دل میں بلایا ہے تجھے
ٹھیک ہے سب کچھ مگر اسکے بغیر
یہ جہاں مجھ کو تو ویرانہ لگا
سہمی سہمی جا رہی ہے چاندنی
پیچھے پیچھے ہے وہی لڑکا لگا
سب کو دریا کے حوالہ کر دیا
پھر کنارہ سے سفینہ آ لگا
پہلے صحرا پر ہوا گھر کا گماں
رفتہ رفتہ گھر بھی اک صحرا لگا
کب اٹھا لے ہاتھ سر سے آسماں
ہے زمیں کو رات دن دھڑکا لگا
اس قدر کھاۓ ہیں وعدوں سے فریب
اب تِرا آنا بھی اک دھوکہ لگا
بارشوں کے بعد اُجلا آسماں
تیری آنکھوں میں بہت اچھا لگا
دیکھنے والوں کی حالت غیر ہے
اور ان آنکھوں میں مت سرمہ لگا
حسن ہو تو چاہنے والے بہت
عاشقوں کا ہے یہاں میلہ لگا
وہ جو پھولوں سے بھی نازک ہے اسے
چومنے میں جان کا خطرہ لگا
چاندنی کے دیس سے آیا ہوا
اجنبی تھا وہ مگر اپنا لگا
اتنی آہیں اتنے آنسو چل بسے
اس محبت پر بڑا پیسہ لگا
عمر بھر کی ناتمامی کا صلہ
ہے یہ اس کو دیکھ کے ایسا لگا
احمد فواد
No comments:
Post a Comment