حسیں زبان ہے اردو، غضب روانی ہے
یہ حسن و عشق میں ڈوبی ہوئی جوانی ہے
کبھی کبھی ہے بانک پن گلاب کی مانند
کہیں کہیں یہ زلفِ یار کی کہانی ہے
شراب جیسا نشہ بھی کبھی چھلک جائے
ہر اک زبان پہ جاری زبان ہو اردو
غزل ہمیں کوئی ایسی تمہیں سنانی ہے
ذیشان نور صدیقی
(ذیش)
No comments:
Post a Comment