Tuesday, 1 September 2020

حسیں زبان ہے اردو غضب روانی ہے

حسیں زبان ہے اردو، غضب روانی ہے
یہ حسن و عشق میں ڈوبی ہوئی جوانی ہے
کبھی کبھی ہے بانک پن گلاب کی مانند
کہیں کہیں یہ زلفِ یار کی کہانی ہے
شراب جیسا نشہ بھی کبھی چھلک جائے
کبھی یہ وعظ و نصیحت کی اک نشانی ہے
ہر اک زبان پہ جاری زبان ہو اردو
غزل ہمیں کوئی ایسی تمہیں سنانی ہے

ذیشان نور صدیقی
(ذیش)

No comments:

Post a Comment