گردشوں میں بھی ہم راستہ پا گئے
جس گلی سے چلے تھے وہیں آ گئے
ناگہاں اس نے جب پُرسشِ حال کی
آنکھ نم ہو گئی، ہونٹ تھرا گئے
ذکر جب بھی چِھڑا ہے وفا کا کہیں
ہاتھ الجھنے لگے جیب و داماں سے کیوں
اے جنوں! کیا بہاروں کے دن آ گئے
وہ نظر اٹھ گئی جب سرِِ مے کدہ
خود بخود جام سے جام ٹکرا گئے
ایسے نازک تو اقبال ہم بھی نہ تھے
لوگ نادان تھے ہم سے ٹکرا گئے
اقبال صفی پوری
No comments:
Post a Comment