Tuesday, 1 September 2020

گردشوں میں بھی ہم راستہ پا گئے

گردشوں میں بھی ہم راستہ پا گئے
جس گلی سے چلے تھے وہیں آ گئے
ناگہاں اس نے جب پُرسشِ حال کی
آنکھ نم ہو گئی، ہونٹ تھرا گئے
ذکر جب بھی چِھڑا ہے وفا کا کہیں
جانے کیوں ہم کو کچھ دوست یاد آ گئے
ہاتھ الجھنے لگے جیب و داماں سے کیوں
اے جنوں! کیا بہاروں کے دن آ گئے
وہ نظر اٹھ گئی جب سرِِ مے کدہ
خود بخود جام سے جام ٹکرا گئے
ایسے نازک تو اقبال ہم بھی نہ تھے
لوگ نادان تھے ہم سے ٹکرا گئے

اقبال صفی پوری

No comments:

Post a Comment