کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا
آنکھ ساقی کی اٹھے، نام ہو پیمانے کا
گرمئی شمع کا افسانہ سنانے والو
رقص دیکھا نہیں تم نے ابھی پروانے کا
کس کو معلوم تھی پہلے سے خِرد کی قیمت
چشمِ ساقی مجھے ہر گام پہ یاد آتی ہے
راستہ بھول نہ جاؤں کہیں مے خانے کا
اب تو ہر شام گزرتی ہے اسی کوچے میں
یہ نتیجہ ہوا ناصح! تِرے سمجھانے کا
منزلِ غم سے گزرنا تو ہے آساں اقبال
عشق ہے نام خود اپنے سے گزر جانے کا
اقبال صفی پوری
No comments:
Post a Comment