🎕گزر گئی جو چمن پر وہ کوئی کیا جانے🎕
جھڑے ہوۓ ہیں بہار و خزاں کے افسانے
جہاں پہ گریباں بھی چاک دل بن جائے
گزر رہے ہیں اب منزلوں سے دیوانے
مِرے لبوں کا تبسم تو سب نے دیکھ لیا
تِرے حضور جنہیں کہہ سکی نہ گویائی
مِرے سکوت نے دُہرا دئیے وہ افسانے
نگاہِ عشق میں دَیر و حرم کی قید نہیں
کہیں بھی شمع جلے، اڑ چلیں گے پروانے
تمام وسعتِ کونین کو ڈبو دیں گے
چھلک گئے جو کہیں اس نظر کے پیمانے
نہ اشتیاقِ نظارہ، نہ اعتبارِ جمال
ٹھہر گئی ہے کہاں زندگی خدا جانے
نہ شمع بزم پہ کچھ آنچ آۓ گی اقبال
خود اپنی آگ میں جلتے رہیں گے پروانے
اقبال صفی پوری
No comments:
Post a Comment