نیند میں گنگنا رہا ہوں میں
خواب کی دُھن بنا رہا ہوں میں
ایک مدت سے باغ دنیا کا
اپنے دل میں لگا رہا ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں وہ شہر تھا کیا
اب تجھے میرا نام یاد نہیں
جب کہ تیرا پتہ رہا ہوں میں
آج کل تو کسی صدا کی طرح
اپنے اندر سے آ رہا ہوں میں
ایسا مُردہ تھا میں کہ جینے کے
خوف میں مبتلا رہا ہوں میں
تھی وہ تنہائی بھی عجب معصوم
جس سے آراستہ رہا ہوں میں
اکبر معصوم
No comments:
Post a Comment