یہ ساری دھول مِری ہے یہ سب غبار مِرا
گزر ہے تیرے خرابے سے بار بار مرا
خزاں تو کیا، نہیں جس کی بہار کو بھی خبر
اک ایسے باغ کے اندر ہے برگ و بار مرا
ہے دل کے نغمہ و نالہ سے اب گریز مجھے
میں خوش ہوں نان و نمک پر، تو اسکی داد نہ دے
کہ بھیک مانگتا پھرتا ہے شہریار مرا
مِرے وجود میں رہ میری خواہشیں مت گِن
کہ اس کھنڈر میں کبوتر ہے بے شمار مرا
نہ مجھ سے پوچھئے کیسے ہیں یہ فراق کے دن
کہ مجھ سے روز بچھڑتا ہے ایک یار مرا
جہاں کو میں نے زرِ خاک سے خریدا ہے
مِرا غرور ہے معصوم انکسار مرا
اکبر معصوم
No comments:
Post a Comment