وہ جو فردوس نظر ہے آئینہ خانہ ابھی
جلوہ گر جو وہ نہ ہوں ہو جائے ویرانہ ابھی
شمع کی لو میں سما کر خود سراپا نور ہو
دور رس اتنی نہیں پروازِ پروانہ ابھی
تیرا دیوانہ ہے اس کی رفعتوں کا ذکر کیا
گرد کو جس کی نہ پہنچا کوئی فرزانہ ابھی
ملتفت ہو کر نہ بخشیں اس طرح لبریز جام
میری ہستی کا چھلک جائے نہ پیمانہ ابھی
کعبہ سے پھر آیا وہ بہرِ طوافِ مے کدہ
سحر کی فطرت میں ہے اندازِ رندانہ ابھی
سحر عشق آبادی
No comments:
Post a Comment