Tuesday, 1 September 2020

اگرچہ دشوار تھا مگر زیر کر لیا تھا

اگرچہ دشوار تھا مگر زیر کر لیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لیا تھا
وہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ہے
طلب میں جس کی زمیں پہ بوسیدہ گھر لیا تھا
گلوں کی چاہت میں ایک دن کیا بچھایا ہو گا
کہ ہم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لیا تھا
بڑھایا اس نے جو گرم جوشی سے ہاتھ یارو
نہیں تھا مسلک اگرچہ نذرانہ، پر لیا تھا
اسی کا بخشا ہوا تھا سب کچھ تو دیر کیسی
بس اک اشارے پہ کاسۂ جان دھر لیا تھا
دلِ شکستہ کی مدتوں تک خبر نہ آئی
کھلا کہ مٹھی میں تُو نے اے فتنہ گر لیا تھا
عدو نے چالوں سے چِت کیا ہے رشید حسرت
وگرنہ ہم نے بھی اسپ تو نامور لیا تھا

رشید حسرت

No comments:

Post a Comment