اگرچہ دشوار تھا مگر زیر کر لیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لیا تھا
وہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ہے
طلب میں جس کی زمیں پہ بوسیدہ گھر لیا تھا
گلوں کی چاہت میں ایک دن کیا بچھایا ہو گا
بڑھایا اس نے جو گرم جوشی سے ہاتھ یارو
نہیں تھا مسلک اگرچہ نذرانہ، پر لیا تھا
اسی کا بخشا ہوا تھا سب کچھ تو دیر کیسی
بس اک اشارے پہ کاسۂ جان دھر لیا تھا
دلِ شکستہ کی مدتوں تک خبر نہ آئی
کھلا کہ مٹھی میں تُو نے اے فتنہ گر لیا تھا
عدو نے چالوں سے چِت کیا ہے رشید حسرت
وگرنہ ہم نے بھی اسپ تو نامور لیا تھا
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment