Tuesday, 1 September 2020

مہنگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً

مہنگائی کا اب آیا ہے طوفان یقیناً
توڑے ہیں حکمرانوں نے پیمان یقیناً
مزدور کو پابند کیا گھر پہ بِٹھایا
دو وقت کی اب اس کو نہیں نان یقیناً
انسان کی توہین کبھی اتنی نہیں تھی
روٹی پہ گِراں خُون پہ ارزان یقیناً
جس حکم پہ دہقان کی محنت کا صِلہ ضبط
تحقیر کے لائق ہے وہ فرمان یقیناً
جس گاؤں میں افلاس میں دن ہم نے گزارے
اب ہوں گے وہاں موت کے سامان یقیناً
ہر ظلم پہ جب بند رکھے آنکھ قیادت
تب تخت کے تختے کا ہے امکان یقیناً
جس شخص نے تنویر مجھے علم کی بخشی
اس کا ہے بڑا مجھ پہ یہ احسان یقیناً
جو دل کے کھرے ان پہ کڑا وقت بھلے ہو
منزل بھی مگر ان کی ہے آسان یقیناً
اے دیس کی مٹی تجھے شاداب رکھیں گے
دہقان بڑھائیں گے تِری شان یقیناً
سچ پوچھیئے رشید ہمی جھوٹ بھرے ہیں
دینی ہے خدا ہی کو ہمیں جان یقیناً

رشید حسرت

No comments:

Post a Comment