قسمت کو منظور یہی تھا جیتی بازی ہار گئے
لڑتے رہے ہم طوفانوں سے اور وہ دریا پار گئے
اس شہرِ محرومِ وفا میں جینا بھی کیا جینا ہے؟
آنکھیں ویراں، سینہ خالی جب سے وہ سرکار گئے
جن کی یاد کو دل میں بسا کر ہم نے عمر گزاری تھی
اب تو ان کے نام پر زندہ رہنے کے آثار گئے
اب تو اپنی محفل میں کچھ تاجر ہیں، کچھ سوداگر
جن پر ہم کو فخر تھا وہ سب دوست گئے، وہ یار گئے
میرے دل کے آئینے میں جن کا نام نمایاں تھا
ان کے جھوٹے وعدے ہم کو جیتے جی ہی مار گئے
ان کا دل پتھر تھا محسن پتھر کو کیا ہوتا ہے
کوئی آنسو کام نہ آیا سب شکوے بے کار گئے
محسن نقوی
نصرت فتح علی خان نے اس غزل بہت اعلیٰ گایا ہے، کبھی وقت نکال کر سنئے گا۔
No comments:
Post a Comment