Tuesday, 1 September 2020

گزرتے دن کے دکھوں کا پتہ تو دیتا تھا

گزرتے دن کے دکھوں کا پتا تو دیتا تھا
وہ شام ڈھلنے سے پہلے صدا تو دیتا تھا
ہجوم کار میں پل بھر بھی اک بہانے سے
وہ اپنے قرب کا جادو جگا تو دیتا تھا
شریکِ راہ تھا وہ ہمسفر نہ تھا پھر بھی
قدم قدم پہ مجھے حوصلہ تو دیتا تھا
مجھی کو ملتی نہ تھی فرصت پذیرائی
وہ اپنے سچ کا مجھے آئینہ تو دیتا تھا
وہ چاند اور کسی آسماں کا تھا لیکن
افق افق کو مِرے جگمگا تو دیتا تھا

ارمان نجمی

No comments:

Post a Comment