گزرتے دن کے دکھوں کا پتا تو دیتا تھا
وہ شام ڈھلنے سے پہلے صدا تو دیتا تھا
ہجوم کار میں پل بھر بھی اک بہانے سے
وہ اپنے قرب کا جادو جگا تو دیتا تھا
شریکِ راہ تھا وہ ہمسفر نہ تھا پھر بھی
مجھی کو ملتی نہ تھی فرصت پذیرائی
وہ اپنے سچ کا مجھے آئینہ تو دیتا تھا
وہ چاند اور کسی آسماں کا تھا لیکن
افق افق کو مِرے جگمگا تو دیتا تھا
ارمان نجمی
No comments:
Post a Comment