بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے
زباں پہ کانٹوں کا احساس بھی غنیمت ہے
رواں ہے سانس کی کشتی اسی کے دھارے پر
یہ ایک ٹوٹی ہوئی آس بھی غنیمت ہے
نشاں نمُو کے ہیں کچھ تو بساطِ صحرا پر
پھر اس کے بعد تمہاری شناخت کیا ہو گی
روایتوں کی یہ بُو باس بھی غنیمت ہے
وہ اب بھی ملتا ہے اپنی ادائے خاص کے ساتھ
کہ وضع داری کا یہ پاس بھی غنیمت ہے
ارمان نجمی
No comments:
Post a Comment